لاہور ہائیکورٹ نے خواتین ہراسگی مقدمے میں محتسب پنجاب کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ڈائریکٹر مینجمنٹ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کو نوکری سے نکالنے کا اقدام درست قرار دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے عمر شہزاد کی درخواست پر 17 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ خواتین اکثر عزت، خاندانی وقار اور سماجی دبائو کے باعث ہراسگی واقعات کا فوری اظہار نہیں کرتیں تاہم اس خاموشی کو رضامندی نہیں سمجھا جا سکتا، نہ ہی اس بنیاد پر ان سے رپورٹ کرنے کا حق چھینا جا سکتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ کام کی جگہ پر ہراسگی کی حدود صرف آفس بلڈنگ تک محدود نہیں ہوتیں، اگر کوئی افسر اپنے عہدے یا اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے خاتون کو دھمکائے یا ناجائز تعلقات پر مجبور کرے تو یہ بھی ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
عدالت کے مطابق شکایت کنندہ خاتون ٹیچر نے الزام عائد کیا کہ درخواست گزار اسے غلط نظروں سے دیکھتا، ناجائز تعلقات کیلئے پیغامات بھیجتا اور انکار پر نوکری ختم کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا، خاتون کے مطابق ستمبر 2022 میں درخواست گزار اس کے گھر آیا اور زبردستی زیادتی کی کوشش کی۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ واقعہ کام کی جگہ پر پیش نہیں آیا اور شکایت ذاتی رنجش کا نتیجہ ہے تاہم عدالت نے قرار دیا کہ یہ الزامات اختیارات کے غلط استعمال کے زمرے میں آتے ہیں، شکایت کنندہ کے کردار پر سوال اٹھانا درخواست گزار کے طرزِ عمل کو جواز فراہم نہیں کرتا۔
عدالت نے یہ اعتراض بھی مسترد کر دیا کہ فوجداری کارروائی کی موجودگی میں محتسب کارروائی نہیں کر سکتا اور واضح کیا کہ محتسب پنجاب کا دائرہ کار نظم و ضبط سے متعلق ہے جبکہ فوجداری مقدمہ الگ عمل ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ محتسب پنجاب اور گورنر کے فیصلوں میں کوئی قانونی سقم موجود نہیں، لہٰذا درخواست گزار کی نوکری بحالی کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔


