فرانس کے شہر لیون میں جمعرات کی شام روشنیوں کے تہوار کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ اس تہوار کا شمار یورپ کے معروف سرمائی ثقافتی ایونٹس میں ہوتا ہے۔
ہر سال چار روز تک سورج ڈھلتے ہی یہ فرانسیسی شہر ایک وسیع اور کھلی فضائی گیلری کا منظر پیش کرتا ہے۔
یہ تخلیقات دل موہ لینے والی منظر کشی کے ڈیزائن سے لے کر سادہ مگر معنی خیز انسٹالیشنز تک پھیلی ہوئی ہیں جن کا مقصد لیون کے تاریخی تعمیراتی ورثے کو اجاگر کرنا ہے۔ بڑی پروجیکشنز اور جدید لائٹ آرٹ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل اس شہر کی گلیوں، چوراہوں اور تاریخی عمارتوں کو ایک نئے روپ میں ڈھالتے ہیں۔
شہر کے حکام کے مطابق انیسویں صدی کی ایک مقامی روایت یعنی کھڑکیوں میں شمعیں جلانے کے رواج سے جڑا یہ سالانہ تہوار اب ہر سال تقریباً 20 لاکھ مہمانوں کی توجہ حاصل کرتا ہے۔
اس ایونٹ میں سینکڑوں بین الاقوامی فنکار اور روشنی کے ڈیزائنر حصہ لیتے ہیں۔ یہ تہوار شہری روشنی اور ڈیجیٹل آرٹ میں عالمی معیار بن چکا ہے۔
رواں برس کے پروگرام میں کئی ممالک کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ یہ تہوار مقامی جشن سے بڑھ کر فنونِ لطیفہ میں جدت کے ایک بڑے عالمی پلیٹ فارم میں تبدیل ہو چکا ہے۔
کاروباری حلقے اور سیاحت سے وابستہ ادارے توقع رکھتے ہیں کہ یہ تہوار مقامی معیشت کو زبردست تقویت دے گا۔ روایتی طور پر ہوٹل اور ریستوران اس چار روزہ تہوار کے دوران زیادہ گنجائش پر خدمات فراہم کرتے ہیں۔
بہت سے مقامی رہائشیوں کے لئے روشنیوں کا تہوار سب سے بڑھ کر ایک ایسی اجتماعی روایت ہے جو مقامی یادوں کو عالمی فنون کے رجحانات کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔
لیون، فرانس سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکسٹ آن سکرین:
فرانس کے شہر لیون میں روشنیوں کا تہوار منایا جا رہا ہے
چار روزہ تہوار یورپ کے مشہور سرمائی ثقافتی ایونٹس میں شامل ہے
شہر سورج غروب ہوتے ہی ایک کھلی فضائی گیلری میں بدل جاتا ہے
تخلیقات میں منظر کشی کے شاندار ڈیزائن اور سادہ مگر معنی خیز انسٹالیشنز شامل ہیں
بڑی پروجیکشنز اور جدید لائٹ آرٹ تاریخی عمارتوں اور گلیوں کو نیا روپ دیتے ہیں
یہ تہوار کھڑکیوں میں شمعیں جلانے کی دو سو سالہ روایت سے جڑا ہوا ہے
ہر سال تقریباً 20 لاکھ زائرین فیسٹیول آف لائٹس میں شریک ہوتے ہیں
سینکڑوں بین الاقوامی فنکار اور روشنی کے ڈیزائنر اس میں حصہ لیتے ہیں
متعدد ممالک کی شرکت نے اسے ایک عالمی پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا
یہ تہوار مقامی یادوں کو عالمی فنون کے رجحانات سے جوڑ رہا ہے


