کونمنگ (شِنہوا) چین کے جنوب مغربی صوبے یون نان میں باؤشان شہر کے زیر انتظام ایک چھوٹے سے قصبے مانگ کوان میں دریا ئےنوجیانگ گارج پر ایک معلق پل کے قریب ایک بل کھاتی پہاڑی سڑک پر واقع ایک غیر معمولی کیفے اپنی دلکش خوشبوؤں سے راہگیروں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔
پتھر کی چکی کی شکل کے کاؤنٹر کے پیچھے ایپرن پہنے ہوئے لی جن حہ ایک سائفن برتن کے نیچے بلو ٹارچ جلاتے ہیں اور شیشے کے چیمبر کے گرد آگ کی لپیٹیں گھومنے لگتی ہیں تو وہ کافی پاؤڈر کو آہستہ سے ہلاتے ہیں۔ انہوں نے تھکی ہوئی مگر پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ میں آج پھر صبح سویرے تک کافی پیستا رہا۔
53 سالہ لی مانگ کوان کے تانگشی گاؤں میں بلند قامت گاؤلی گونگ پہاڑوں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں وہ پچھلے 14 سال سے یہ سڑک کنارے کیفے چلا رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے کافی بنانے کی اپنی ڈرامائی آگ والی تکنیک کی وجہ سے نئی توجہ حاصل کی ہے۔
لی بچپن سے ہی کافی کی ثقافت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے شِنہوا کو بتایاکہ بچپن میں، میں کافی کے درختوں کی دیکھ بھال میں بڑوں کی مدد کرتا تھا، بعد میں جب میں بڑا ہوا تو ہم نے پہاڑی ڈھلوانوں کو ہموار کر کے وہاں کافی کے پودوں کو اخروٹ کے درختوں کے ساتھ لگایا۔
قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے باوجود ان کے آبائی شہر میں کافی کی کاشت کی روایت کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔
اگرچہ پکے ہوئے کافی کے پھل میٹھے ہوتے ہیں لیکن کافی بنانے کے ابتدائی طریقوں سے اکثر ایک کڑواہٹ پیدا ہوتی تھی جو گاؤں والوں کو ناگوار لگتی تھی۔ لی کو یاد ہے کہ اس وقت کوئی بھی کافی کو نہیں سمجھتا تھا۔ ہم الکوحل کے لیمپ پر کافی پاؤڈر کو ابالتے تھے لیکن لمبا انتظار کرنے کی وجہ سے اس کا ذائقہ ضائع ہو جاتا تھا۔ جب انہوں نے پہلی بار اپنا کیفے کھولا تو لی ہاتھ سے پانی لاتے تھے اور راہگیروں کو مفت نمونے پیش کرتے تھے۔ اس امید پر کہ مقامی لوگوں میں اس مشروب کی قدر پیدا ہو۔
مقامی لوگوں نے لی کی غیر متزلزل لگن کو دیکھا ہے۔ تقریباً 3 دہائیوں کا تجربہ رکھنے والی کافی اگانے والی شین ژی شیانگ نے کہا کہ ہم نے انہیں سالوں سے محنت کرتے دیکھا ہے۔ اب شین خصوصی قسم کی کافی کے دانے چھانٹنے اور کیفے میں لی کی مدد کرنے کے لئے ان کے ساتھ تعاون کرتی ہیں جس سے ان کی ماہانہ آمدنی میں تقریباً 3 ہزار یوآن (تقریباً 424 امریکی ڈالر) کا اضافہ ہوا ہے۔


