وفاقی آئینی عدالت نے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کی پیشرفت رپورٹ ،27 ویں آئینی ترمیم کے بعد سوموٹو کارروائی چلانے پر وکلاء سے معاونت طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ بلا شبہ ارشد شریف کی فیملی کا کرب الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا، سب چاہتے ہیں قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے، قتل کو تین سال ہوچکے، اگر کارروائی چلتی تو شائد ازخود نوٹس نہ لینا پڑتا۔
بدھ کو وفاقی آئینی عدالت میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس روزی خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس پر سماعت کی۔
عدالت نے قتل کی تحقیقات سے متعلق پیشرفت رپورٹ 17دسمبر تک طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ رپورٹ میں قانونی طور پر اٹھائے گئے اقدامات اور آئندہ کی تجاویز بھی شامل کی جائیں جس پر چھٹیوں کے بعد بحث کی جائے گی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بتایا جائے کہ اب تک تحقیقات میں کیا پیشرفت ہوئی اور تحقیقات اور قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کیلئے قانونی طور پر کیا ہو سکتا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 27ویں آئینی ترمیم کے بعد آئینی عدالت سوموٹو کارروائی چلا سکتی ہے؟، دونوں جانب کے وکلا قانونی نقطہ پر آئندہ سماعت کو معاونت کریں۔
عدالت نے واضح کیا کہ عدالتی کارروائی کو ریگولیٹ کرنے کیساتھ دائرہ اختیار کو بھی دیکھنا ہے، کارروائی کا مقصد وہ حاصل ہو جس کیلئے سوموٹو لیا گیا کیونکہ آئینی عدالت میں کیس سماعت کے بغیر تو کیس نہیں چل سکتا۔
وکیل اہلیہ ارشد شریف عمران شفیق نے موقف اپنایا کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے کہ آئینی عدالت سوموٹو کارروائی کو آگے بڑھا سکتی ہے، ارشد شریف کے قتل کے بعد 5ہزار سے زائد خطوط بھیجے گئے، ان میں سے کسی کو بھی درخواست کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
مقتول صحافی کی پہلی بیوی کے وکیل سعد عمر بٹر نے عدالت میں ارشد شریف کے اہلخانہ کی جانب سے جے آئی ٹی تحقیقاتی رپورٹ دیکھنے کی اجازت دینے کی استدعا کی جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو عدالت آپ کیساتھ ہے، تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ حتمی چالان جمع ہو تو ہی اس کیساتھ منسلک دستاویزات کو دیکھا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ وہ کچھ باتیں کہنا نہیں چاہتے البتہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ دی گئی تھی جو پبلک ہو گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کینیا حکومت کیساتھ قانونی معاونت کا معاہدہ ہو گیا ہے، کینیا حکومت کو کرائم سین کا وزٹ کرنے کی درخواست بھجوا دی ہے، کینیا پاکستان کا دوست ملک ہے ناراض نہیں کر سکتے، اقوام متحدہ میں کینیا پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے، ہم لڑ نہیں سکتے۔
جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کینیا حکومت کی اب تک کی تحقیقات میں کیا ہوا؟ جس پر وکیل اہلیہ ارشد شریف نے بتایا کہ کینیا ہائی کورٹ نے اپنے پولیس اہلکاروں کو ملزم قرار دیا ہے لیکن ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد بھی کینیا میں قتل کے ملزمان کی پراسیکیوشن شروع نہیں ہوئی، کینیا حکومت نے ذمہ دار پولیس افسران کو پروموٹ کر دیا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بلاشبہ ارشد شریف کی فیملی کا کرب الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا اور سب چاہتے ہیں کہ قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے، کرائم سین پاکستان سے باہر ہے اور حکومت پاکستان عالمی قوانین کی پابند ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ قتل کا کرائم سین پاکستان ہوتا تو ابتک معاملہ حل ہو چکا ہوتا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ابتک 47اجلاس ہوئے ہیں اور 74 لوگوں کے تحقیقاتی ٹیم نے بیان قلمبند کئے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ارشد شریف کے قتل کو تین سال ہو گئے ہیں اور اگر کارروائی چلتی تو شاید ازخود نوٹس نہ لینا پڑتا، انہوں نے پوچھا کہ اس کیس میں ملزمان کون کون ہیں اور کیا پاکستان میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔
وکیل اہلیہ نے کہا کہ تین سال ہوگئے ہیں ابھی تک تحقیقات میں کچھ نہیں ہوا، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ریاست پاکستان کینیا کی عدلیہ میں ان کیساتھ کھڑی ہو۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں کینیا کی ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا اور حکومت نے اقوام متحدہ سے قانونی مدد کا آپشن بھی ایکسرسائز نہیں کیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مو قف اپنایا کیا کہ اس لیول پر دوست ملک کیخلاف نہیں جا سکتے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تصدیق کی کہ پاکستان میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے جس میں تین افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن میں خرم، وقار، صالح کے نام شامل ہیں لیکن وہ مفرور ہیں اور انٹر پول سے مفرور ملزمان کے ریڈ وارنٹ کیلئے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایل اے سائن ہونے کے بعد تحقیقاتی ٹیم نے کرائم سین کو وزٹ کرنا ہے۔
اس پر وکیل اہلیہ نے کہا کہ حکومت تحقیقات اور ملزمان کو کٹہرے لانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈپلومیٹک چینل میں کسی سے لڑ نہیں سکتے اور ڈپلومیٹس کو معلوم ہوتا ہے کہ چیزوں کو چینلائز کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ارشد شریف قتل کے معاملہ پر کینیا کے صدر کیساتھ ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل نے بتایا کہ ان کی جانب سے کچھ افراد کے نام دیئے گئے جس پر تحقیقات نہیں ہوئیں۔
بعد ازاں عدالت نے قتل تحقیقات سے متعلق پیشرفت رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت17دسمبر تک ملتوی کردی۔


