سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے آئین کو واپس درست کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 27ویں ترمیم میں بعض شخصیات کو دی گئی مراعات و سہولیات خدمات کا صلہ نہیں، طبقاتی تفریق کے مترادف ہیں، ہم مغربی کی پیروی کررہے پھر کہتے ہیں اللہ کو جواب دینا ہے، اللہ کو جواب دینے والے کام تو آپ کر چکے ہیں۔
منگل کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمنٹ کے فورم پر ہم مشاورت سے معاملات طے کرتے ہیں، یہاں کوشش کی جاتی ہے کہ آئین متنازعہ نہ ہو تاہم27ویں ترمیم میں ایسا نہیں ہوسکا اور وہ متنازع ہوگی، اسے آئین کے ٹائٹل پر زخم سمجھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ آئین میں ترمیم کر سکتے تھے مگر ان کی طرف سے مذاکرات کئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ 9ماہ کی محنت کے بعد ہم نے 18ویں ترمیم تیار کی تو لگا ہماری جماعتیں اختلاف کے باوجود اکٹھی ہوسکتی ہیں مگر جب 26ویں آئینی ترمیم آئی تو پی ٹی آئی اس میں شریک نہیں تھی، ہم انہیں ترمیم کے حوالے سے بتایا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم میں سود سے متعلق تجاویز پیش کیں، اس پر بھی ایک ماہ میں اتفاق رائے حاصل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے برعکس 27 ویں ترمیم کیلئے جمہوری تقاضے پورے نہیں ہو سکے، سیاسی لحاظ سے بہت بونے پن کا مظاہرہ کیا گیا، شعوری طور پر ایسا کیوں کیا گیا؟۔
انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اس میں بعض شخصیات کو بہت سہولیات و مراعات دی گئی ہیں، ہمیں شخصیات یا ان کے منصب سے مسئلہ نہیں مگر ایسی مراعات کسی کو دینا خدمات کا صلہ نہیں بلکہ طبقاتی تقسیم ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج پنجاب میں ڈی سیز ہاتھ مروڑ کر علماء کو وزارت تعلیم سے رجسٹرڈ کروا رہے ہیں، 18 سال سے پہلے کے شرعی نکاح کو جنسی زیادتی قرار دیا گیا مگر بچے جائز ہونگے، پھر کہتے ہیں اللہ کو جواب دینا ہے اللہ کو جواب دینے والے کام تو آپ کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج جو مغرب چاہتا ہے ہم اس کی پیروی کر رہے ہیں، آپ نے غلطیاں کی ہیں ان کو واپس کریں، آئین کو واپس درست کیا جائے۔


