کابل/اسلام آباد (شِنہوا)قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق سرحدی جھڑپوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں دونوں ممالک نے دوحہ میں مذاکرات کئے اور پائیدار امن و استحکام کو مضبوط بنانے کے لئے ایک طریقہ کار قائم کرنے کا عہد کیا۔
حالیہ کشیدگی کے بعد زمینی صورتحال کیا ہے؟ جھڑپیں کیوں شروع ہوئیں؟ اور کیا یہ جنگ بندی برقرار رہ سکتی ہے؟
افغانستان اور پاکستان دونوں کے حکام نے جنگ بندی کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ جنگ بندی کے نفاذ کے لئے تفصیلی طریقہ کار اور سکیورٹی تعاون بڑھانے پر بات چیت کے لئے دونوں فریق 25 اکتوبر کو استنبول میں مذاکرات کا ایک اور دور منعقد کریں گے۔
جھڑپیں شروع ہونے کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ کئی اہم سرحدی راستے بند کر دیئے تھے۔ پیر کی صبح تک یہ راستے بند رہے جس سے افغانستان میں سامان لے جانے والی ایک اہم سپلائی لائن منقطع ہو گئی۔
پاکستانی ذرائع نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی کارروائی کا مقصد افغانستان کے اندر واقع ان دہشت گرد ٹھکانوں کا خاتمہ کرنا ہے جہاں سے حال ہی میں پاکستانی سرزمین پر بار بار حملے کئے گئے ہیں۔ جبکہ ایک افغان سیاسی تجزیہ کار نے پاکستان کے اس اقدام کو ایک سوچے سمجھے دفاعی عمل سے تعبیر کیا اور کہا کہ موثر مواصلاتی چینلز کے بغیر صورتحال آسانی سے انتقامی کارروائیوں کے ایک سلسلے میں بدل سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں نے حالیہ کشیدگی کے پیچھے 2 کلیدی عوامل کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں دونوں قوموں کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازع اور پاکستان کی افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی جاری مہم شامل ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان سرحد جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتا ہے، برطانوی نوآبادیاتی حکام نے 19 ویں صدی میں کھینچی تھی اور یہ 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ لمبی ہے۔ اس حد بندی نے پشتون برادری کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جس سے پاکستان میں افغانستان کی نسبت زیادہ پشتون رہ گئے ہیں۔ نتیجتاً پے در پے افغان حکومتوں خاص طور پر پشتون قوم پرستی سے متاثر ہونے والوں نے اس لائن کو ایک جائز بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جس کی صفوں میں زیادہ تر پشتون شامل ہیں، طویل عرصے سے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ پہاڑی علاقوں کا فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک کے درمیان نقل و حرکت کرتی ہے اور پاکستان کے اندر حملے کرتی ہے۔ اسلام آباد کا موقف ہے کہ کابل ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کر رہا ہے اور اس نے افغانستان سے اس گروہ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، یہ ایک ایسا الزام ہے جس سے افغان حکام انکار کرتے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق اگست میں پاکستان کے اندر 143 عسکری حملے ہوئے جو جولائی کے مقابلے میں 74 فیصد اضافہ ہےاور فروری 2014 کے بعد سے ان میں سب سے زیادہ ماہانہ جانی نقصان ہوا ہے، ان میں سے زیادہ تر حملے ٹی ٹی پی سے منسوب کئے گئے ہیں۔
پاکستان کی حکومت یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ عسکریت پسند افغان مہاجر آبادی میں چھپے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اسلام آباد نے غیر دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ افغانستان کی وزارت مہاجرین و وطن واپسی کے مطابق 2025 کے آغاز سے اب تک 10 لاکھ سے زیادہ افغانیوں کو پاکستان سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ اس اجتماعی واپسی نے افغانستان کی معاشی مشکلات، بے روزگاری اور تعلیمی چیلنجز کو مزید بدتر کر دیا ہے اور بہت سے افغانیوں میں پاکستان مخالف جذبات کو گہرا کیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دونوں اطراف کی معاشی مجبوریاں بڑے پیمانے پر کشیدگی کو بڑھنے سے روکتی ہیں۔ پاکستان کی سرحدی بندشوں نے خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء سے لدے ٹرکوں کی لمبی قطاریں سرحدی راستوں پر کھڑی کر دی ہیں اور بہت سی جلد خراب ہونے والی اشیاء پہلے ہی ضائع ہو چکی ہیں۔ اسی وقت افغانستان کی زرعی مصنوعات، کوئلہ اور دستکاری کی مصنوعات کی برآمدات جو پاکستان کے ذریعے بین الاقوامی منڈیوں تک جانی تھیں، رک گئی ہیں۔ افغانستان کے اندر ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
دونوں حکومتیں اپنی بین الاقوامی ساکھ کو بچانے کی خواہش مند ہیں اور ایک عارضی جنگ بندی کو کم سے کم نقصان دہ آپشن سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے لئے یہ معاہدہ فوج کو دوبارہ منظم ہونے کا وقت فراہم کرتا ہے اور اسلام آباد کو بین الاقوامی سطح پر یہ ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کابل کی امن کی درخواست کا جواب دے رہا ہے۔ افغانستان کے لئے جنگ بندی کی حمایت اسے دہشت گردوں کو پناہ دینے والی ریاست کا لیبل لگنے سے بچاتی ہے۔ ایک ایسا تاثر جو اس کی پہلے سے کم ہوتی ہوئی غیر ملکی امداد کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔
پھر بھی بنیادی کشیدگی غیر حل شدہ ہے کیونکہ پاکستان مسلسل یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ افغانستان ٹی ٹی پی سے تمام تعلقات منقطع کر دے جبکہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔
باہمی تعلقات کا رخ بیرونی عوامل پر بھی منحصر ہوگا جن میں وہ حمایت شامل ہے جو افغانستان کو امریکہ اور بھارت جیسے ممالک سے حاصل ہوتی ہے۔ آیا ایران پاکستان کی جگہ افغانستان کے لئے ایک اہم تجارتی راہداری بن سکتا ہے اور قطر، ترکیہ اور سعودی عرب جیسی اقوام کی دونوں فریقین کے درمیان ثالثی جاری رکھنے کی آمادگی اور صلاحیت کتنی ہے۔
