سانیا(شِنہوا)چین کے جنوبی صوبے ہائی نان کے شہر سانیا میں واقع یاژو بے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی کے ایک افزائشی فارم میں حالیہ دنوں میں پاکستان سے آئے ہوئے ٹرینی جدید چینی زرعی مشینری کی کارکردگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے پائے جا سکتے ہیں۔
یہ مشینیں خودکار ڈرائیونگ نظاموں سے لیس ہیں جو چینی ماہرین کی ٹیموں نے تیار کئے ہیں۔ پاکستانی ٹرینی باری باری ان مشینوں میں بیٹھ کر ان کی صلاحیتوں کا تجربہ کر رہے تھے۔
یہ ٹرینی چین میں ایک ہزار زرعی گریجویٹس کی صلاحیت سازی کے پروگرام کا حصہ ہیں جو چین اور پاکستان کی قیادت کی جانب سے شروع کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے لئے پاکستانی حکومت نے ایک ہزار زرعی ماہرین کو منتخب کیا ہے تاکہ وہ چین میں تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں۔
چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز (سی اے اے ایس) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس پروگرام کا مقصد پاکستانی زرعی ماہرین کو جدید ٹیکنالوجیز سے روشناس کرانا ہے اور دونوں ممالک میں پائیدار زرعی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ یہ پروگرام 3 ماہ پر محیط ہے اور مکمل طور پر چین میں منعقد کیا جا رہا ہے۔ ان شرکاء میں سے 26 افراد زیادہ تر وقت سانیا میں واقع سی اے اے ایس نیشنل نان فان ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں گزاریں گے۔
فصلوں میں بیماریوں اور کیڑوں کی شناخت کرنے والے اے آئی سے چلنے والے چشموں اور ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل ہونے والے کیڑوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنے والے انسیکٹ ریڈار تک چین کی جدید زرعی ٹیکنالوجی اور سازوسامان نے ٹرینی شرکاء کی معلومات اور سوچ کو وسعت دی ہے۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ہارٹیکلچر ریسرچر اقرا نور نے کہا کہ چین کی جدید زراعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے جہاں بیج بونے، کاشت، حشرات کے کنٹرول اور مٹی کی نگرانی جیسے تمام مراحل میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہو رہا ہے۔ یہاں ڈیجیٹلائزیشن کا معیار بہت بلند ہے۔
تربیتی پروگرام پھل اور سبزیوں کی پروسیسنگ اور زرعی مشینری کے دو اہم شعبوں پر مرکوز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پروگرام بیجوں کی اقسام میں بہتری، بیماریوں اور کیڑوں کے تدارک اور زرعی مصنوعات کی پراسیسنگ جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ تدریس کا طریقہ نظریاتی تدریس، خاطر خواہ فیلڈ وزٹ، تجربہ گاہوں میں مشق اور عملی تربیت پر مبنی ہے تاکہ شرکاء عملی مہارتیں بھی حاصل کرسکیں۔
پاکستان کی ایک زرعی کمپنی میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کی منیجر افرح محمود نے کہا کہ چین نےدیرینہ زرعی مسائل کے لئے کئی اختراعی تکنیکی حل تیار کئے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ چینی تحقیقی صلاحیتوں کو پاکستانی اداروں اور کسانوں سے جوڑنے کا ایک پل بن سکیں گی اور زرعی تبدیلی و بہتری کے منصوبے متعارف کرائیں گی، جن میں زراعت اور گرین ہاؤس کاشتکاری میں جدید ٹیکنالوجیز کے اطلاق سے متعلق منصوبے بھی شامل ہوں۔
دوسری طرف چینی ماہرین پر پاکستانی ٹرینیوں نے مثبت تاثر چھوڑا ہے۔سی اے اے ایس نان فان ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی نائب ڈائریکٹر لی ہوئی ہوئی نے کہا کہ یہ ٹرینی صرف سیکھنے نہیں آئے بلکہ وہ اپنے ملک کی زرعی ترقی سے متعلق مخصوص سوالات بھی لے کر آئے ہیں۔ مثال کے طور پر زرعی مشینوں کی تربیت کے دوران انہوں نے بار بار مشینوں کی کارکردگی، مرمت کی لاگت اور استعمال میں آسانی کے بارے میں سوالات کئے۔
یہ پروگرام چین اور پاکستان کے درمیان زرعی تعاون کے بیج بو رہا ہے۔ لی نے کہا کہ ہائی نان کے گرم و مرطوب آب و ہوا کے مطابق زرعی ماڈلز کو دیکھنے سے پاکستانی ٹرینیوں کا اعتماد بڑھا ہے کہ وہ یہ ٹیکنالوجیز اپنے ملک میں بھی متعارف کرائیں۔ مشترکہ فیلڈ ورک اور مسئلہ حل کرنے کی کوششوں نے دونوں ممالک کے محققین کے درمیان دوستی کو بھی مضبوط کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ باہمی اعتماد مستقبل میں طویل مدتی تعاون کی مضبوط بنیاد بنے گا۔
جمعرات کو عالمی یوم خوراک کی مناسبت سے شرکاء نے عالمی غذائی تحفظ کو مضبوط بنانے کے لئے تعاون پر گفتگو اور خیالات کا تبادلہ کیا۔پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے محقق سید انیس الرحمان نے کہا کہ خوراک کا تحفظ تمام ممالک کے لئے ایک مشترکہ چیلنج ہے جس کے لئے تحقیق، پیداوار، تجارت اور خاص طور پر ٹیکنالوجی اور علم کے تبادلے میں تعاون کی ضرورت ہے۔
بہت سے پاکستانی شرکاء کے لئے یہ پروگرام چین کے ساتھ تعاون کا صرف آغاز ہے۔ متعدد شرکاء نے مستقبل میں چین میں پی ایچ ڈی یا پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کے لئے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔سید انیس الرحمان پہلے ہی چینی ماہرین سے چین میں تعلیم کے منصوبوں پر بات کر چکے ہیں۔
سید انیس الرحمان کا کہنا تھا کہ فی الحال میری توجہ اس تربیتی پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے پر ہے۔ تربیت کے بعد چینی پروفیسرز ایک جامع جائزہ لیں گے اور اگر میرے نتائج عمدہ ہوئے تو مجھے سفارش بھی مل سکتی ہے۔
