جینان (شِنہوا) چین کے مشرقی صوبہ شان ڈونگ کے شہر چھو فو میں منعقدہ 11ویں نیشان فورم برائے عالمی تہذیبوں کے موقع پر ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے چین میں خصوصی نمائندے محمد اصغر نے اس تقریب سے متعلق اپنے گہرے تاثرات بیان کیے اور عالمی سطح پر کنفیوشس کے افکار کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثر انگیزی پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔
فورم کے دوران ایک انٹرویو میں اصغر نے کہا کہ کنفیوشس صرف چینی عوام تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تعلیمات، کتابیں اور فنون بہت اہم ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک سے بہت سے دانشور یہاں جمع ہوتے ہیں۔
کنفیوشس (551-479 قبل مسیح) ایک چینی فلسفی اور ماہر تعلیم تھے جن کی اخلاقیات، ہم آہنگی اور اچھے نظم ونسق پر مبنی تعلیمات نے 2 ہزار سال سے زائد عرصے تک چینی ثقافت کی تشکیل کی اور متعدد دیگر تہذیبوں کو متاثر کیا۔
نیشان کا دوسری مرتبہ سفر کرتے ہوئے اصغر نے ایک شاندار تقریب کا تجربہ کیا جس میں 70 سے زائد ممالک سے 560 سے زائد شرکاء نے حصہ لیا۔
انہوں نے "تنوع میں خوبصورتی: عالمی جدیدیت کے لیے تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کو پروان چڑھانا” کے عنوان کے تحت بامعنی مباحثوں میں حصہ لیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کنفیوشس کی عالمی اپیل کی وجہ سے ہی دنیا بھر سے متعدد دانشور فلسفی کی جائے پیدائش چھوفو میں جمع ہوئے ہیں تاکہ مکالمے کا حصہ بنیں اور عصری عالمی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے دانش حاصل کریں۔
چین کی ترقی کے ایک دیرینہ مبصر کے طور پر اصغر نے ملک کے عالمی اقدامات خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)پر گہری نظر رکھی ہے ۔
انہوں نے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کو مفید تعاون کی ایک عمدہ مثال کے طور پر پیش کیا جس سے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے، توانائی، نقل و حمل اور روزگار میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ باہمی مفید تعاون اور مشترکہ ترقی کا تصور دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے،یہ صرف 1 یا 2 ممالک کے مفاد کو پورا نہیں کرتا بلکہ سب کے مفاد میں ہے، پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ خوشحالی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
ان کے خیال میں گزشتہ چند دہائیوں میں چین کی تیز رفتار ترقی نے دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین اب بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعےاور نیشان فورم جیسے ثقافتی اور فلسفیانہ تبادلوں کے ذریعے بھی دنیا کے ساتھ اپنے ترقیاتی تجربات بانٹنے پر آمادہ ہے۔
اصغر نے کہا کہ چین نہ صرف اقتصادی طور پر ترقی کر رہا ہے بلکہ ثقافتی کھلے پن اور مکالمے کو بھی فروغ دے رہا ہے، یہ بڑھتی ہوئی ثقافتی خود اعتمادی کے ساتھ دنیا کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔
