ہفتہ, جولائی 12, 2025
ہومChinaپاکستانی طلبہ ہائی نان میں بین الثقافتی تبادلے کے فروغ اور طبی...

پاکستانی طلبہ ہائی نان میں بین الثقافتی تبادلے کے فروغ اور طبی خدمات کی فراہمی میں سرگرم

ہائیکو(شِنہوا)5 سے 11 جولائی تک ہائی نان میڈیکل یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ایجوکیشن کالج کی چینی اور بین الاقوامی طلبہ پر مشتمل رضاکار ٹیم نے چین کے جنوبی صوبہ ہائی نان کے شہر وان نِنگ کا دورہ کیا۔

اس رضاکار ٹیم میں شامل بین الاقوامی طلبہ کا تعلق پاکستان، انڈونیشیا اور گھانا جیسے ممالک سے تھا۔ ٹیم نے وان نِنگ کے دیہی علاقوں اور قصبوں کا دورہ کیا جہاں انہوں نے چینی ثقافت، خاص طور پر لی قومیت کی اقلیتی ثقافت، مقامی مارشل آرٹس کا مشاہدہ اور ’پور اوور‘ کافی بنانے کے طریقے سیکھے۔

ٹیم کے تمام ارکان علاج معالجہ کے طلبہ تھے۔ ان دنوں میں وہ مریضوں کو خدمات فراہم کرنے کے لئے مقامی ہسپتال گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈاکٹروں سے تبادلہ خیال کیا تاکہ اپنے اپنے ممالک میں بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے طریقوں کے فرق کو سمجھا جا سکے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والی ماحین خالد کا چینی نام شی وانگ ہے جس کا انگریزی میں مطلب امید ہے۔ انہوں نے اس تجربے کے حوالے سے اپنے احساسات ڈائری میں قلم بند کئے۔ انہوں نے لکھا کہ مجھے وان نِنگ کے ہسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ یہ ایک آنکھیں کھول دینے والا بھرپور تجربہ تھا۔ میں نے بنیادی تشخیص میں مدد کی اور مختلف شعبوں میں عملے کی مدد کی۔ مختلف علاقوں میں جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ہر کام کس قدر منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور طبی عملہ کس قدر پرعزم ہے۔ اس تجربے نے مجھے اس شہر کا ایک نیا رُخ دکھایا جو اس کی انسانیت اور دیکھ بھال پر مبنی تھا۔

اس عرصہ میں ٹیم نے انسداد منشیات تعلیم اور آگاہی مہم میں بھی حصہ لیا جس کا مقصد معذوری کے شکار افراد میں منشیات کے خلاف شعور بیدار کرنا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے ایک سمر سکول میں اپنے اپنے ممالک کی کلاسیکی کتابیں بچوں کو پیش کیں اور انہیں کہانیاں سنائیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے شبیر محمد انس نے کہا کہ بچوں کی کتابیں ہمارے درمیان بین الثقافتی مکالمے کا پُل بن سکتی ہیں۔ یہ انتہائی بامعنی بات ہے۔

آکاش قدر کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ وہ اور محمد انسداد منشیات سرگرمی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ قدر نے کہا کہ میں نے اس سرگرمی کے ذریعے مختلف اقسام کی منشیات کے خطرات کے بارے میں سیکھا۔ میں اب دوسروں کو شعور دینے اور نشے کے شکار افراد کی مدد کرنے کے لئے مزید پُرجوش ہوں تاکہ ہم ایک محفوظ معاشرہ قائم کرسکیں۔

محمد نے مزید کہا کہ چینی حکومت کی عوامی دیکھ بھال سے میں انتہائی متاثر ہوا ہوں۔ میں اس بات پر بہت متاثر ہوا کہ اس سے پہلے اتنے چھوٹے قصبے میں اس طرح کی سرگرمی کبھی نہیں دیکھی۔ میں چینی حکومت کے اس اقدام کو سراہتا ہوں۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!