کونمنگ(شِنہوا)کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلحہ الٰہی ایک صبح دونان پھول منڈی پہنچے جو تازہ کٹے پھولوں کی ایشیا کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے تاکہ وہ تازہ پھولوں کے ای-کامرس پلیٹ فارم کے لئے بین الاقوامی تجارتی ماہر کے طور پر اپنا کام شروع کرسکیں۔
خریداری کا ہیٹ میپ، زمرہ کی درجہ بندیاں، پھولوں کا رنگوں کے لحاظ سے تناسب ،طلحہ کمپیوٹر کے سامنے چینی، انگریزی اور اردو کی بورڈز کے درمیان مہارت سے سوئچ کرتے ہوئے مختلف ممالک اور خطوں کے گاہکوں کو کمپنی کی مصنوعات اور لاجسٹک معلومات بھیجنے میں مصروف تھے۔
2024 میں دونان پھول منڈی میں تجارتی حجم 14.176 ارب تازہ کٹے ہوئے پھولوں تک پہنچ گیا جبکہ لین دین کی مالیت 11.574 ارب یوآن رہی۔ ہر روز یہاں تقریباً کروڑوں تازہ کٹے پھولوں کا کاروبار ہوتا ہے اور یہ پھول 50 سے زائد ممالک اور خطوں کو برآمد کئے جاتے ہیں۔
چین میں تقریباً ایک دہائی کی تعلیم کے دوران طلحہ نے نہ صرف اپنی انڈرگریجویٹ اور ماسٹر کی تعلیم مکمل کی بلکہ وہ کونمنگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں بین الاقوامی تجارت میں دوسری ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لئے اپنی اعلیٰ تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مطالعہ کے اس دور نے انہیں نہ صرف پیشہ ورانہ علم سے مالا مال کیا بلکہ چینی پھولوں کی صنعت سے ان کا ایک اٹوٹ رشتہ بھی قائم کیا جس سے وہ چینی پھولوں کو دنیا بھر میں فروغ دینے والے ایک سرحد پار سفیر بن گئے۔
کونمنگ ہواایب ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ جہاں طلحہ کام کرتے ہیں، دونان میں قائم ایک مستحکم پھول ای-کامرس پلیٹ فارم کمپنی ہے۔ 2016 میں اپنے قیام کے بعد سے کمپنی نے پھولوں کی تجارت اور ترسیل کے ماڈل میں جدت پیدا کی ہے۔یہ کمپنی انٹرنیٹ کے ذریعے پھولوں کے پیداواری مراکز، کسانوں اور تاجروں کو آپس میں جوڑتی ہے، جس سے دنیا بھر میں پھولوں کی آسان فروخت ممکن ہوگئی ہے اور یہ عمل وقت اور مقام کی حدود سے آزاد ہو چکا ہے۔
طلحہ نے کہا کہ ہواایب میں کام کرنے سے وہ اپنے شعبے میں سیکھے ہوئے علم کو استعمال کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی گاہکوں کے ساتھ بات چیت اور تبادلے کے ذریعے یون نان کے پھول ملائیشیا، سنگاپور، عمان، تاجکستان اور روس جیسے ممالک میں بہت مقبول ہیں۔ خاص طور پر گلاب، للی اور لسیانتھس سب سے زیادہ فروخت ہونے والے پھول ہیں۔ وہ اس میٹھے کاروبار کے بھی شوقین ہوگئے ہیں۔
ہواایب کے جنرل منیجر وانگ ڈونگ نے کہا کہ یون نان کے پھول اپنی اقسام، اعلیٰ معیار اور کم قیمتوں کی وجہ سے غیر ملکی ممالک میں تیزی سے پسند کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یون نان کی پھولوں کی صنعت تیزی سے موثر سہولیاتی زراعت کو فروغ دے رہی ہے جو اس ماحول میں بہتر معیار کے پھول پیدا کر رہی ہے۔
پھولوں کے ایک ویتنامی تاجر نگوین تھوئے وین نے کہا کہ ماضی میں ہالینڈ سے آرکڈز درآمد کرنا مہنگا تھا اور لاجسٹک بھی مشکل تھی ۔
نگوین نے مزید کہا کہ دونان سے ملنے والے پھول معیاری اور مسابقتی قیمت پر دستیاب ہیں جبکہ ان کی ترسیل بھی آسان ہے،مستقبل میں ہم یون نان سے بڑی مقدار میں تازہ پھول درآمد کریں گے ۔
طلحہ اور ان کے ساتھیوں کے پل کے کردار کے ذریعے یون نان کے آرکڈز، گلاب، للی اور دیگر اہم پھول نیز جپسوفیلا جیسے معاون پھول جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور روس میں تیزی سے اپنی مارکیٹیں کھول رہے ہیں۔
طلحہ کا یون نان سے تعلق 2016 میں اس وقت شروع ہوا جب وہ سیچھوان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور پہلی بار یون نان کے یونگ شینگ کاؤنٹی کے سبازی گاؤں کا دورہ کیا۔
انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس وقت گاؤں میں نہ سڑکیں تھیں نہ بجلی اور نہ ہی انٹرنیٹ تھا، اب سڑکیں ہیں، سٹریٹ لائٹس ہیں اور گاؤں والے اپنی خصوصی اشیاء ای-کامرس پلیٹ فارم کے ذریعے بیچ سکتے ہیں۔
اس تجربے نے انہیں زیادہ متاثر کیا اور انہیں لوگوں کو مچھلی پکڑنا سکھانے کے تصور کے ذریعے چین میں دیہی احیا کی حکمت کو صحیح معنوں میں تجربہ کرنے کا موقع ملا۔
یہ ناقابل فراموش تجربہ طلحہ کے اس عزم کو مزید مضبوط کر چکا ہے کہ وہ چین میں اپنی اعلیٰ تعلیم جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ دیہی کھیتوں سے لے کر بین الاقوامی منڈی تک، صرف ایک پھول کے عالمی سفر کے ذریعے نہ صرف چین کی متحرک ترقی کو محسوس کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کی عالمی نظام میں مضبوط شمولیت کو بھی بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
مستقبل کو دیکھتے ہوئے طلحہ نے کہا کہ وہ نہ صرف پاکستان میں چینی پھولوں کی رومانوی بہار دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ ای-کامرس پلیٹ فارم سے سیکھے گئے قیمتی تجربات کو بھی اپنے وطن واپس لانا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو ڈیجیٹل ای-کامرس اقتصادی ترقی کی تیز رفتار ٹرین پر سوار ہونے میں مدد مل سکے۔
