اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل سماعت کے دوران استفسار کیا ہے کہ اے پی ایس حملے اور 9مئی احتجاج کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟ ،کوئی دو رائے نہیں آئین سے منافی کوئی قانون برقرار نہیں رہ سکتا،مستقبل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟، عجیب بات ہے قانون کی شق کو کالعدم بھی قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے سپیشل ریمیڈی والوں کو استثنیٰ ہے،ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، اسے روکنا ،شواہد اکٹھے کرنا انتظامیہ کا کام ہے، جب شواہد نہیں ہونگے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ سو گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ ایک بے گناہ کو سزا دینا غلط ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے۔جمعہ کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ایئر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد انہ حملہ ہوا اور 9مئی پر احتجاج ہوا ،دونوں واقعات کے سویلین میں کیا فرق ہے؟۔
وکیل احمد حسین نے جواب دیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعہ کے بعد 21ویں ترمیم کی گئی جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔وکیل خواجہ احمد حسین نے 9مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9مئی واقعہ پر 15مئی کو اعلامیہ جاری کیا جس پر عدالت نے ا ستفسار کیا کہ کیا آپ کو اعلامیہ پر اعتراض ہے؟۔
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ میرا اعلامیہ پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیہ میں کہا گیا 9مئی پر پورے ادارہ میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، 9مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، کور کمانڈر اجلاس اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ ،جو خود متاثرہ ہو وہ شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہمارے سامنے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن یادیو کیس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے تو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جیسے واقعات میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادیو پر بات نہیں کی گئی جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ مستقبل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ اس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوگا۔اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اچھا جی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے قانون کی شق کو کالعدم بھی قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے سپیشل ریمیڈی والوں کو استثنیٰ ہے۔خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہیں؟ ،خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ یہ حقیقت ہے مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا روز سننے میں آتا ہے کہ اتنے جوان شہید ہو گئے، حملہ آور سویلیز ہوتے ہیں، آپ کے مطابق سویلیز کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں انسداد دہشتگردی عدالت میں ہونا چاہئے، ٹو ڈی ون ٹو کے کالعدم ہونے پر ملزمان کا ٹرائل کیسے ہو گا؟، اس وقت ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، ملک میں مکتی باہنی کی تحریک نہیں حملہ آور سویلینز ہی ہیں۔جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ دہشتگردی روکنا انتظامیہ کا کام ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ شواہد اکٹھے کرے، عدالت کے سامنے جب شواہد نہیں ہونگے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ سو گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ ایک بے گناہ کو سزا دینا غلط ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا، ہمارا ججز کا ایک قافلہ جا رہا تھا، 5منٹ قبل بم دھماکا ہوا، خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہوتا تو 6ججز چلے جاتے، اگر ہماری عدالتوں کے سامنے شواہد نہیں ہوں گے تو ملزمان بری ہی ہوں گے، بغیر شواہد کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130ویں نمبر پر ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت ہو یا کوئی بھی عدالت، بہتری کیلئے اصلاحات ضروری ہوتی ہیں، یہاں کوئی گواہی دینے نہیں آتا، کسی کے سامنے قتل ہو جائے پھر بھی وہ گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں 25،25تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے اور مقدمہ ملتوی ہوتا رہتا ہے۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں اپنے دلائل کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ جن ملزمان کا مقدمہ یہاں پر لڑ رہے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں۔
اس پر خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں وکیل آرمی چیف کی اجازت سے ملتا ہے، آرمی چیف اجازت نہ دیں پسند کا وکیل نہیں ملتا، فیصلہ کوئی کرتا اسے کنفرم دوسری اتھارٹی کرتی ہے، ایسے تو کنفرمنگ اتھارٹی ناٹ گلٹی کو گلٹی بھی کر سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ ایف بی علی سمیت عدالتی فیصلوں سے کیسے انحراف کر سکتے ہیں؟ ،ایف بی علی کیس میں قانونی شقوں کو برقرار رکھا گیا، ایف بی علی فیصلے کی کئی عدالتوں میں توثیق کی گئی، 21ویں ترمیم کا فیصلہ سترہ ججز کا ہے۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت سوموار 3 فروری تک ملتوی کردی۔جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین پیر کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔